استاد پر اشعار

تعلیم کو لکھیں گے اگر تاج محل ہم
اس پیکر تدریس کو محراب لکھیں گے

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے

بیدار ہوں دل جس کی فغانِ سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہیں نایاب

کوئی تو ایسا ہو کہ نظر جس پہ رُک سکے
اہل نگاہ دیدہ وروں کو ترس گئے

اپنے استادوں کو پایا ہم نے مشفق مہربان
حق نےنخشے ہیں انھیں اوصاف میر کارواں

پھونک کر اپنے آشیانے کو
روشنی بخش دی زمانے کو

فلک پر جب چمکتا ہے ہمارے عزم کا سورج
اندھیرے خود بہ خود تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں

سرمہ مفت نظر ہوں مری قسمت یہ ہے 

کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا